حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید علی ہاشم عابدی کہا کہ پاکستان کوئٹہ مچھ میں 11 بے گناہ نہتھے ہزارہ شیعہ مزدوروں کی شہادت نے جہاں انسانیت کو شرمسار اور آدمیت کو سوگوار کر دیا وہیں ریاست مدینہ کی راگ الاپنے والے پاکستانی حکمرانوں کے اصل چہرے کو بھی دنیا کے سامنے واضح کر دیا۔ مسلمانوں کے نام پر بننے والے ملک میں نہ مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی اسلامی مقدسات کی حرمت محفوظ ہے۔ بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں اور بے گناہوں کے قتل اور انکے غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چند دن پہلے ان گیارہ بے گناہوں کو دہشت گردوں نے پکڑا اور ان کے ہاتھ پیر باندھ کر ذبح کر دیا۔ چار دن سے شہداء کے سوگوار اہل خانہ مغموم ملت کے ہمراہ انصاف کی امید اور قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبہ کے ساتھ شدید سردی میں دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ مظلوم کو فریاد کرنے کا حق دین نے بھی دیا ہے اور دنیا کے ہر قانون نے ، اسی طرح قاتلوں اور مجرموں کو لگام لگانا، انہیں گرفتار کرنا اور سزا دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ حاکم اگر شہداء کی مظلومانہ شہادت پر اظہار غم نہ بھی کرتا تو کم از کم اپنی ذمہ داریوں سے لا پرواہی اور اپنی ناکامی پر اظہار شرمندگی ضرور کرتا لیکن اس کے برخلاف حکمراں نے شہداء کے وارثین کو پرسہ اور اظہار ہمدردی کے بجائے انہیں کمال بے حسی سے بلیک میلر کہہ دیا۔ قاتل آزاد گھوم رہے اور مقتولین کے سوگوار مجرم قرار پا گئے۔ العجب ثم العجب۔
حاکم کی بے حسی پر بے ساختہ یہ شعر یاد آ گیا۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچہ نہیں ہوتا۔
لیکن یاد رہے جس طرح یہ جاہل دہشت گرد مجرم ہیں اسی طرح بے دین حکمراں بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اور انشاء اللہ بے گناہوں کا خون دونوں کو غرق کر دے گا۔
مزید اضافہ رتے ہوئے بیان کیا کہ کتنا حیرت خیز ہے کہ یزید پلید جس سے نہ فقط تمام اسلامی فرقے اظہار برات کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے اکثر انسانوں کے نزدیک وہ ملعون و منفور ہے لیکن اس کے باوجود یزید پلید حامی ریلی کرنے والوں پر حاکم نے نہ کوئی پابندی لگائی اور نہ ہی انکو کچھ کہا لیکن مظلوموں کے خلاف فورا منھ کھول دیا۔آخر خود حاکم کس طرف ہے ؟
ریاست مدینہ اور نظام مصطفیٰ ؐ کی رٹ لگانے والے حکمراں کو معلوم ہونا چاہئیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور حکومت میں نہ فقط مسلمان بلکہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ اور تمام انسان مکمل محفوظ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اگر کسی غیر مسلم پر بھی ظلم ہوتا تو آپ تڑپ جاتے اور اس کی بھرپائی فرماتے۔ وہ رحمۃ للعالمینؐ تھے ان کا پورا نظام عین رحمت تھا جہاں ظلم و جور اور قتل و خونریزی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ رعایہ کی حفاظت اور سماج میں امن و سکون آپ کی حکومت کا امتیاز تھا۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےتقریبا دس برس حکومت کی لیکن حکومت آپ کا مقصد نہیں تھا بلکہ سماج میں عادلانہ نظام قائم کرنا ہی آپ کا مقصد تھا۔ جہاں نہ عرب کو عجم پر کوئی فضیلت حاصل تھی اور نہ عجم کو عرب پر ۔ اور نہ ہی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت تھی اور نہ ہی کالے کو گورے پر۔
حضورؐ کی شہادت کے پچیس برس بعد جب حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کو حکومت ملی تو آپ نے بھی اسی نظام محمدیؐ کو دوبارہ قائم کیا۔ بیت المال سے جتنا آپ خود لیتے اتنا ہی اپنے غلام قنبر کو عطا کرتے ۔ یہی کثرت عدالت تھی کہ جسکی تاب غیر تو غیر خود آپ ؑ کے بھائی جناب عقیل نہ لا سکے۔اور دنیا کے واحد حکمراں مولا علیؑ ہیں کہ جنکو انکی عدالت کے سبب محراب عبادت میں شہید کر دیا گیا۔
ہر ملک کی حکومت کی طرح پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے لئے امن و سلامتی قائم کرے۔ امن و سلامتی میں خلل ایجاد کرنے والے تمام عناصر پر لگام لگائے اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے سنجیدگی سے کوئی موثر اقدام کرے تا کہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام شہری دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ رہیں۔ اور اگر امن و امان قائم کرنا اور حکومتی تقاضوں کو پورا کرنا آپ کے بس میں نہیں تو یہ ذمہ داریاں کسی اہل کے حوالہ کر دیں۔ ظاہر ہے یہ حکومت ہے کرکٹ کا میدان نہیں کہ جس میں صرف دوڑ دوڑ کر رن بنانا ہو یہ ایک سنجیدہ مقام ہے اسے سنجیدگی سے لیں کوئی کھیل نہیں کہ آپ کھیلیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب مظلوموں کا احتجاج آپ کے گریبان تک پہنچ جائے اور پھر خود آپ کے ساتھ کھیل ہو جائے۔
مظلوموں کی فریاد رسی کریں اور ظالمین کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے کے اقدامات کریں۔
اور یہ بات بھی کتنی تعجب خیز ہے کہ اگر فرانس یا امریکہ میں کسی کو قتل کر دیا جائے تو تمام حقوق بشر کے ادارات سمیت جملہ مفتیان مذمتی بیان اور فتوی دے دیتے ہیں اگرچہ ظلم ظلم ہے کسی پر بھی ہو قابل مذمت ہے لیکن کم از کم جب پاکستان، بحرین، یمن وغیرہ میں کسی پر ظلم ہو تو اس وقت سکوت اختیار نہ کریں بلکہ اس وقت بھی کم سے کم انسانیت کے لئے عالمی حقوق بشر کے ادارات بھی بولیں اور اقدام کریں تا کہ یہ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ ختم ہو سکے اور ساتھ ہی مفتیان بھی خاموش نہ رہیں۔